یوم وفات 10 اپریل 1923
مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
مجھے دیکھو کہ ہوتا ہے یہی انجام الفت کا
انہیں شوق دل آزاری ہمیں ذوق وفاداری
خدا حافظ ہے اب اپنے کشور کار الفت کا
وصال یار کی اے دل کوئی پر زور کوشش کر
ہوائے آہ سے پردہ اٹھا دے شام فرقت کا
دل پر شوق نے ڈالا ہے مجھ کو کس کشاکش میں
ادھر ہے حد کی بے صبری ادھر وعدہ قیامت کا
تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا
لگا رکھتا ہے اس کی نذر کو چشم تمنا نے
وہ اک آنسو کہ مجموعہ ہے ساری دل کی طاقت کا
مری قدرت سے اب اخفائے راز عشق باہر ہے
کہ رنگ آنے لگا ہے آنسوؤں میں خون حسرت کا
اک آہ سرد بھر لیتا ہوں جب تم یاد آتے ہو
خلاصہ کس قدر میں نے کیا ہے رنج فرقت کا
وہ دل ہے بزم عالم میں نظرؔ اک ساز بشکستہ
نہ چھیڑے تار ہستی پر جو نغمہ اس کی قدرت کا
منشی نوبت رائے نظر لکھنوی