Urdu Deccan

Friday, February 19, 2021

آفتاب شمیم اقبال


 یوم پیدائش 16 فروری 1933


نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں

اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں


بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے

کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں


نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں 

رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں


آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں

منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی کھڑی ہیں


جب پاس کبھی جائیں تو پٹ بھیڑ لیں کھٹ سے

کیا لڑکیاں سپنے کے دریچوں میں کھڑی ہیں


کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا

آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں


خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے

پاتال سے گہری ہیں، سمندر سے بڑی ہیں


آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...