یوم پیدائش 16 فروری 1933
نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں
اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں
بے نام سی آواز شگفت آئی کہیں سے
کچھ پتیاں شاید شجر شب سے جھڑی ہیں
نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے ابل آئیں
رہنے دو جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں
آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں
منزل بھی بلاتی ہے صلیبیں بھی کھڑی ہیں
جب پاس کبھی جائیں تو پٹ بھیڑ لیں کھٹ سے
کیا لڑکیاں سپنے کے دریچوں میں کھڑی ہیں
کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں
خاموشیاں اس ساحل آواز سے آگے
پاتال سے گہری ہیں، سمندر سے بڑی ہیں
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment