Urdu Deccan

Showing posts with label #poetrylovers #urduadab. Show all posts
Showing posts with label #poetrylovers #urduadab. Show all posts

Friday, July 21, 2023

فضیل احمد ناصری

یوم پیدائش 13 مئی 1978

جواں ، جو تھے کل تک ستاروں سے آگے 
وہ غافل ہیں غفلت شعاروں سے آگے

عزیزو ! چھلانگیں نہ اتنی لگاؤ
خزاں کی رتیں ہیں بہاروں سے آگے

ادب کے تقاضے سے دامن نہ کھینچو
رہو تم نہ پرہیز گاروں سے آگے

دہکتی ہوئی آگ کا ہے سمندر
ذرا جھانک دل کش نظاروں سے آگے

صحابہ کا نقش قدم راہِ حق ہے
بڑھو تم نہ ان جاں نثاروں سے آگے

بزرگوں کی صحبت بھی ہے باغ جنت
رکھے گی یہ تم کو ہزاروں سے آگے

غباروں کے خوگر ! بتاؤں میں کیسے
مزے کیا ہیں ان شہ سواروں سے آگے

اجی ! ناصری کو کہاں ڈھونڈتے ہو
ملیں گے تمہیں ہم قطاروں سے آگے 

فضیل احمد ناصری


 

لیاقت علی خان یاسر جالنوی

یوم پیدائش 13 مئی 1972

اپنے ہونے کا نہیں وہم و گماں تک ہم کو
ایسے ویرانے میں ڈھونڈوگے کہاں تک ہم کو

تیری محفل کو سخن زار کریں گے اتنا
بھول پائیں نہ کبھی حرف و بیاں تک ہم کو

کون سناٹے میں اب ہم کو صدائیں دے گا
اب سنائی نہیں دیتی ہے فغاں تک ہم کو

پیار سچا ہے تو پھر دل میں اتر جانے دے
اتنا محدود نہ رکھ اپنی زباں تک ہم کو

تیری فرقت میں بہاروں نے ہے یہ کام کیا
خوں رلا پائی نہ تھی جب کہ خزاں تک ہم کو

اپنی زلفوں کو انہی شانوں پہ رہنے دو ابھی
بار ہوتا نہیں اب بارِ گراں تک ہم کو

جتنے اپنے تھے سبھی دور ہوئے جاتے ہیں
کوئی برداشت کرے گا بھی کہاں تک ہم کو

دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو گے ہم کو یاسرؔ
ہم نظر آئیں گے دیکھو گے جہاں تک ہم کو

 لیاقت علی خان یاسر جالنوی

ابھی کچھ کام باقی ہے ابھی کچھ کام کرنا ہے
ابھی تو صبح دم جاگے ابھی تو شام کرنا ہے

یہ جنگ حق و باطل ہے جسے تم چھیڑ بیٹھے ہو
تمھیں آغاز کرنا تھا ہمیں انجام کرنا ہے

ابھی تاریخ کے صفحوں پر ہم ظل الہی ہیں
ابھی تو عصر حاضر کو بھی اپنے نام کرنا ہے

تمھاری لب کشائی پر بھی ہم خاموش بیٹھیں گے
تمھارے ہر ستم کو آج طشت از بام کرنا ہے

چلے آؤ تمہیں آدابِ محفل ہم سکھاءیں گے
ہمیں دستور برحق کو سبھی میں عام کرنا ہے

محبت کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں لیکن
محبت بھی ہمیں تم سے براے نام کرنا ہے

  لیاقت علی خان یاسر جالنوی


 

محمد سراج الحسن

یوم پیدائش 12 مئی 1940

غیرت ہو گر مزاج میں ذلت سے تو بچے
اہلِ نشاط نفس کی جرأ ت سے تو بچے

ناکارہ کہہ کے ناز اٹھانے نہیں دیا
اچھا ہوا فضول کی زحمت سے تو بچے

مستقبلِ وطن تو بہت بعد کی ہے چیز
پہلے ہی نسلِ نو بری عادت سے تو بچے

لازم ہے کارِ شوق میں کچھ احتیاط بھی
اہلِ ہوس نشاط کی بدعت سے تو بچے

جس دن سے چسکا لگ گیا رزقِ حلال کا
خوش ہیں کہ ہم حرام کی دولت سے تو بچے

ہو سیدھے پن کے ساتھ حسن ٹیڑھا پن بھی کچھ
اتنا تو ہو کسی کی شرارت سے تو بچے

محمد سراج الحسن

مٹتی جاتی ہے ہر اک قدر پرانی اپنی
ختم ہوجائے گی اک روز کہانی اپنی

خوف بندوں کا نہیں ، خوفِ خدا تھا ہم کو
دشمنوں نے بھی تو یہ بات ہے مانی اپنی

کیسے آزاد ہیں ، فکر غلامانہ ہے
کیسے بے قدر ہیں ہم، قدر نہ جانی اپنی

حاکمِ وقت کو تو قرض کا بھی ہوش نہیں
بے حسی اس کی بنی دشمنِ جانی اپنی

اس کو بہبودیِ ملت پہ نچھاور کردیں
کچھ تو کام آئے بہرحال جوانی اپنی

خط میں کیا لکھوں میں حالات ، چلے آؤ یہاں
داستاں تم کو سنادوں گا زبانی اپنی

خون میں پہلی سی گرمی ہے ، نہ وہ پہلا سا جوش
کس طرح ہو بھلا تقدیر سہانی اپنی

رہا دنیا میں سلامت جو حسن ذوقِ سخن
چھوڑ جاؤں گا زمانے میں نشانی اپنی

محمد سراج الحسن


 

نکہت بریلوی

یوم پیدائش 12 مئی 1935

ہر ایک لمحہ طبیعت پہ بار ہے، کیا ہے 
تمہارا غم کہ غم روزگار ہے، کیا ہے 

وہ ہم پہ آج بہت جلوہ بار ہے کیا ہے 
اب اس ادا میں عداوت ہے، پیار ہے، کیا ہے 

ستم تو یہ ہے کہ اس عہد جبر میں بھی یہاں 
ملول ہے نہ کوئی بے قرار ہے، کیا ہے 

ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا 
بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے 

فضا چمن کی ہے ایسی کہ کچھ نہیں کھلتا 
خزاں کی رت ہے کہ فصل بہار ہے، کیا ہے 

سنا ہے رات تو کب کی گزر گئی لیکن 
ہمیں سحر کا ابھی انتظار ہے، کیا ہے 

چمن ہمارا ہے لیکن چمن ہمارا نہیں
نہ بے بسی نہ کوئی اختیار ہے، کیا ہے

بتائے جاتے ہیں عنواں نئے نئے نکہتؔ
مگر تماشہ وہی وہی بار بار ہے، کیا ہے

  
نکہت بریلوی

سیدہ کوثر

یوم پیدائش 11 مئی 

فن جو زیرِ عتاب رہتا ہے
 پھر کہاں اس پہ تاب رہتا ہے
 
 میں تجھے بھولنا بھی چاہوں تو
 غم ترا بے حساب رہتا ہے
 
اور بھی پھول ہیں زمانے میں
باغ میں کیا گلاب رہتا ہے

تم کوئی جب سوال کرتے ہو
دل مرا لاجواب رہتا ہے

میں تمہیں کھو نہ دوں زمانے میں 
دل میں یہ ڈر جناب رہتا ہے

تاز تو بھی نہ کر بہاروں پر
وقت کب ہم رکاب رہتا ہے

سیدہ کوثر


 

فہیم شناس کاظمی

یوم پیدائش 11 مئی 1965

تمہارے بعد جو بکھرے تو کُو بہ کُو ہوئے ہم
پھر اس کے بعد کہیں اپنے روبرو ہوئے ہم

تمام عمر ہوا کی طرح گزاری ہے
اگر ہوئے بھی کہیں تو کبھُو کبھُو ہوئے ہم

یوں گردِ راہ بنے عشق میں سمٹ نہ سکے
پھر آسمان ہوئے اور چارسُو ہوئے ہم

رہی ہمیشہ دریدہ قبائے جسم تمام
کبھی نہ دستِ ہُنر مند سے رفو ہوئے ہم

خود اپنے ہونے کا ہر اک نشاں مٹا ڈالا
شناسؔ پھر کہیں موضوعِ گفتگو ہوئے ہم

فہیم شناس کاظمی


 

اشرف صبوحی

یوم پیدائش 11 مئی 1905

بیمار محبت کو دعاؤں کے اثر سے
پھیرا تو ہے جاتے ہوۓ اللہ کے گھر سے

دنیا مجھے ایک حُسن کا پیکر نظر آئی
دیکھا تھا زمانے کو جوانی کی نظر سے

اک ہم ہیں کہ مرنے کا مزا لیتے ہیں پیہم
اک خضر بیچارے ہیں جو مرنے کو بھی ترسے

اشرف صبوحی


 

اعظم عباس شکیل

یوم پیدائش 10 مئی

نظم مگر وہ چپ ہے

دبی دبی سی گھٹی گھٹی سی
گلے میں اٹکی ہوئی تھی کب سے
تو ایک دن جب
وہ چیخ ابھری تو اس طرح کہ
زمیں پہ ابھری ہوئی لکیروں کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی
فضاؤں میں گونج اٹھی !!!

وہ سن رہا ہے
کہی ہوئی ان کہی
سبھی بات سن رہا ہے
مگر وہ چپ ہے !!

چمن میں پھولوں کی اوٹ لے کر
نہ جانے کب سے دھدھک رہی ہے 
 جو آگ شعلوں میں ڈھل رہی ہے
وہ کتنی جانیں نگل رہی ہے

وہ جانتا ہے
سمجھ رہا ہے
مگر وہ چپ ہے !!

تمام ظلم و ستم کے آلے
وہ سب مشینیں جو ڈھا رہی ہیں
اخوتوں کی محبتوں کی سبھی فصیلیں!!

سب اس کی نظروں کے سامنے ہے
سنائی بھی دے رہا ہے اس کو
مگر وہ چپ ہے !!

ہر ایک گدھ کو 
کھلی اجازت ملی ہوئی ہے
 کہ اپنے پنجوں سے
نرم و نازک نحیف و لاغر 
 بدن کو نوچیں
لہو لہو ہو رہی ہے دھرتی !

وہ دیکھتا ہے
وہ جانتا ہے
مگر وہ چپ ہے !!

یہاں تلک کہ
ہر ایک منصف نےا
پنی آنکھوں کو بند کر کے
توانگروں کے ستم گروں کے 
قلم سے لکھے ہی فیصلے سنائے !

اسے خبر ہے
اسے پتہ ہے
مگر وہ چپ ہے !!

تبھی خموشی کی بے زبانی نے
اپنی چپ توڑ ڈالی
ندائے حق سرحدوں سے اوپر 
فضاؤں میں گونج اٹھی !!

اگر وہ چپ ہے
تو کیوں نہ چپ ہو 
کہ جو ہوا ہے
جو ہو رہا ہے
وہ کیوں نہ ہو گا !!

وہ کیوں نہ چپ ہو 
کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے
اسی کے ایما پہ ہو رہا ہے 
اگر وہ چپ ہے !!!

اعظم عباس شکیل


 

ذکی طارق

یوم پیدائش 10 مئی 1972

سد ا اگتا سورج مرا ترجماں تھا
بساطِ جہاں پر میں کتنا عیاں تھا

مرے گرد اک مجمع دوستاں تھا
مگر جستجو جس کی تھی وہ کہاں تھا

اسے تھے سفر کے سب آداب ازبر
وہ تنہا بذات خود اک کارواں تھا

کسی کی تلون مزاجی کے صدقے
نشیمن قفس تھا قفس آشیاں تھا

مجھے مل نہ پایا یقیں کا اجالا
میں ایسا گرفتارِ وہم و گماں تھا

تھی شب خواب پرور تو دن پُر تجسس
خوشا جب مرا جذبہء دل جواں تھا

” ذکی “ وہ بھی کیا حوصلہ بخش دن تھے
کہ جب مجھ پہ آسیبِ غم مہرباں تھا

ذکی طارق


 

مدثر حسن

یوم پیدائش 10 مئی 1995

اس طرح ترے ہجر کا غم توڑ گیا ہے
جیسے کسی بے کس کو ستم توڑ گیا ہے

تبدیل نہ ہو پائے گااب فیصلہ اس کا
منصف کی طرح وہ بھی قلم توڑ گیا ہے

شاید ہی کسی اور پہ اب ہوگا بھروسا
اک شخص محبت کا بھرم توڑ گیا ہے

اک دھن پہ تھا رقصاں مری سانسوں کا تسلسل
پر کوئی اچانک سے ردھم توڑ گیا ہے

وہ اور ہیں جو کر کے ستم توڑ رہے ہیں
تُو مجھ کو مگر کر کے کرم توڑ گیا ہے

میں دیکھ نہیں پاتا ہوں کچھ اس کے علاوہ
اک چہرہ مری نظروں میں دم توڑ گیا ہے

مدثر حسن


 

معین شفق

یوم پیدائش 10 مئی 1977

سخت مشکل جو ہے آسان بھی ہوسکتا ہے
آدمی چاہے تو انسان بھی ہوسکتا ہے

بے جھجک تم جسے کہہ دیتے ہو کافر لوگو!
تم سے اچھا وہ مسلمان بھی ہوسکتا ہے

دیکھ مظلوم کی آہوں میں اثر ہے کتنا
سرد جھونکا سا ہے طوفان بھی ہوسکتا ہے

اے شفقؔ سب کو پریشاں جو کیا کرتا ہے
ایک دن خود وہ پریشان بھی ہوسکتا ہے

معین شفق


 

ذاکر خان ذاکر

یوم پیدائش 10 مئی 1975

احساس کا قصہ ہے سنانا تو پڑے گا 
ہر زخم کو اب پھول بنانا تو پڑے گا 

ممکن ہے مرے شعر میں ہر راز ہو لیکن 
اک راز پس شعر چھپانا تو پڑے گا 

آنکھوں کے جزیروں پہ ہیں نیلم کی قطاریں 
خوابوں کا جنازہ ہے اٹھانا تو پڑے گا 

چہرے پہ کئی چہرے لیے پھرتی ہے دنیا 
اب آئنہ دنیا کو دکھانا تو پڑے گا 

ذہنوں پہ مسلط ہیں سیہ سوچ کے بادل 
ظلمت میں دیا دل کا جلانا تو پڑے گا 

وہ دشمن جاں جان سے پیارا بھی ہمیں ہے 
روٹھے وہ اگر اس کو منانا تو پڑے گا 

رشتوں کا یہی وصف ہے ذاکرؔ کی نظر میں 
کمزور سہی رشتہ نبھانا تو پڑے گا

ذاکر خان ذاکر


 

انظار البشر

یوم پیدائش 10 مئی 1959

مہر و فا خلوص نے دفنا دیا مجھے
اپنا بنا کے آپ نے ٹھکرا دیا مجھے

چاہا کہ چھو کے دیکھ لوں اک بار آپ کو
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بہلا دیا مجھے

اپنا پتا ملا نہ تمھاری خبر ملی
اتنے عروج پر کہاں ٹھہرا دیا مجھے

الجھا کے اپنے دوش پہ رکھ لیجیے حضور
سلجھی ہوئی یہ زلف نے الجھا دیا مجھے

خوش فہمیوں کے جال میں ہم پھنس کے رہ گئے
بانہوں کا ہار تم نے جو پہنا دیا مجھے

مجھ کو بشرؔ خرد نے چمکنے نہیں دیا
میرے جنونِ شوق نے چمکا دیا مجھے

انظار البشر


 

رباب حیدری

یوم پیدائش 10 مئی 1977

عصائے عشق سے یہ معجزہ نہ ہو جائے
کہ تیرے دل میں مرا راستہ نہ ہو جائے

ہے تازہ تازہ محبت سو اس کا لطف اٹھا
پڑی پڑی کہیں بد ذائقہ نہ ہو جائے

ترا گریز نہ ہو انتہائی درجے کا
جو زاویہ ہے ترا، دائرہ نہ ہو جائے

جو حالیہ ہے اسی سے ہو مستفید، کہیں
نئے کی دھن میں یہی سابقہ نہ ہو جائے

پہاڑ اگنے لگے ہیں جو خوش گمانی کے
ہمارے بیچ کوئی سلسلہ نہ ہو جائے

تو آئنے کے مقابل چمکتا ہے جیسے 
مجھے تو ڈر ہے کہ خود آئنہ نہ ہو جاے

ہیں جس طرح سے مسلسل سفر میں لوگ رباب 
کہیں رکیں تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے

رباب حیدری


 

بی ایس جین جوہر

یوم پیدائش 10 مئی 1927

اک ہوک سی جب دل میں اٹھی جذبات ہمارے آ پہنچے 
الفاظ جو ذہن میں موزوں تھے ہونٹوں کے کنارے آ پہنچے 

حالات غم دل کہہ نہ سکے اور درد دروں بھی سہ نہ سکے 
آنسو جو حصار چشم میں تھے پلکوں کے سہارے آ پہنچے 
 
ہم جوش جوانی میں آ کر اک لا محدود سفر میں تھے 
معلوم ہوا منزل یہ نہ تھی جب گھاٹ کنارے آ پہنچے 

اک عمر گزاری تھی ہم نے مظلوموں کی ہی حمایت میں 
جب گوشہ نشینی کی ٹھانی پھر ظلم کے مارے آ پہنچے
 
بچپن میں بہت دکھ ہوتا تھا مظلوم کی آہ و زاری پر 
ہوتے ہی جواں بہلانے کو دنیا کے نظارے آ پہنچے
 
دنیا کے حوادث نے اتنا پامال کیا ہم کو جوہرؔ 
بچنے کی کوئی امید نہ تھی قسمت کے ستارے آ پہنچے

بی ایس جین جوہر


 

کھیم راج گپت ساغر

یوم پیدائش 09 مئی 1931

بڑھ بڑھ کے اور لوگ ہوئے ان سے ہم کلام
میرے لبوں پہ مہرِ خموشی لگی رہی

کھیم راج گپت ساغر


 

ثمر خانہ بدوشؔ

یوم پیدائش 09 مئی 1987

منزلیں دور ہیں اور آبلہ پائی اپنی 
کیسے ممکن ہو ترے شہر رسائی اپنی

میں ترا نام قبیلے میں جو لیتا ہوں کبھی
ہر کوئی جھاڑنے لگتا ہے خدائی اپنی 

ایک وہ تھا کہ وہ جرگے میں بھی خاموش نہ تھا
ایک ہم تھے کہ نہ دے پائے صفائی اپنی 

اب تو یہ حق بھی نہیں ہے اسے چاہا جائے 
اب تو یہ زیست بھی لگتی ہے پرائی اپنی

عشق کہتے ہیں جسے ہے در یزداں کا چراغ 
اور اسی عشق میں دنیا ہے سمائی اپنی 

مل گئی ہجر کی سوغات ہمیں بھی آخر
جانے اب کیسے کٹے گی مرے بھائی اپنی 

یہ محبت ہے محبت ہے محبت جو ثمر 
عمر بھر کی ہے یہی نیک کمائی اپنی 

 ثمر خانہ بدوشؔ


 

یحیی امجد

یوم پیدائش 09 مئی 1943

پھر لب پہ تیرا ذکر ہے پھر تیرا نام ہے 
پھر جاں لٹانے والوں کا اک ازدحام ہے 

سبط رسول ﷺ ہونا ہی عزت کی بات ہے 
پر اس سے بڑھ کے تیرے عمل کا مقام ہے

ہے حرب عشق فتح کی خواہش سے بے نیاز 
یہ بات الگ کہ ہار کے بھی فتح نام ہے 

کیا غم اگر یزید رہا اقتدار میں 
پرچم تو پھر حسین کا میر عوام ہے 

یحیی امجد 



خالد رحیم

یوم پیدائش 09 مئی 1944

وہ شخص کون تھا مڑ مڑ کے دیکھتا تھا مجھے 
اکیلا بیٹھ کے پہروں جو سوچتا تھا مجھے 

میں اس کے پاس سے گزرا تو یہ ہوا محسوس 
وہ دھوپ سر پہ لیے چھاؤں دے رہا تھا مجھے 

الٹ رہا تھا مری زندگی کے وہ اوراق 
کسی کتاب کی مانند پڑھ رہا تھا مجھے 

اسی میں دیکھ رہا تھا میں اپنا عکس خیال 
وہ ایک چہرہ کہ جو آئنہ لگا تھا مجھے 

اب اس کی یاد لیے پھر رہا ہوں شہر بہ شہر 
کبھی سکون کا لمحہ جو دے گیا تھا مجھے 

وہ شخص میرے توجہ کا بن گیا تھا مدار 
نہ جانے کون سا منظر دکھا رہا تھا مجھے 

میں اس کے جسم کا سایہ تھا سربسر خالدؔ 
جو روشنی کا سمندر سا لگ رہا تھا مجھے

خالد رحیم


 

سید مراتب اختر

یوم پیدائش 09 مئی 1939

ادق یہ بات سہی پھر بھی کر دکھائیں گے 
بلندیوں پہ پہنچ کر تجھے بلائیں گے

مجھے وہ وقت وہ لمحات یاد آئیں گے 
یہ ننھے لان میں جب تتلیاں اڑائیں گے

کیا ہے عہد اکیلے رہیں گے ہم دائم 
بھری رہے تری دنیا میں ہم نہ آئیں گے

سموں کا راستہ تکتی رہیں گی سانولیاں 
جو پنچھیوں کی طرح لوٹ کر نہ آئیں گے

مری قسم تجھے شہلا نہ رو نہ ہو بیتاب 
ترے زوال کے یہ دن بھی بیت جائیں گے

سید مراتب اختر


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...