عصائے عشق سے یہ معجزہ نہ ہو جائے
کہ تیرے دل میں مرا راستہ نہ ہو جائے
ہے تازہ تازہ محبت سو اس کا لطف اٹھا
پڑی پڑی کہیں بد ذائقہ نہ ہو جائے
ترا گریز نہ ہو انتہائی درجے کا
جو زاویہ ہے ترا، دائرہ نہ ہو جائے
جو حالیہ ہے اسی سے ہو مستفید، کہیں
نئے کی دھن میں یہی سابقہ نہ ہو جائے
پہاڑ اگنے لگے ہیں جو خوش گمانی کے
ہمارے بیچ کوئی سلسلہ نہ ہو جائے
تو آئنے کے مقابل چمکتا ہے جیسے
مجھے تو ڈر ہے کہ خود آئنہ نہ ہو جاے
ہیں جس طرح سے مسلسل سفر میں لوگ رباب
کہیں رکیں تو کوئی حادثہ نہ ہو جائے
No comments:
Post a Comment