Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

محمد عارف

 یہ تھکی تھکی سی مُسافتیں اِنہیں ہو سکے تو گُزار دے 

میری چارہ گر، میری ہمسفر، مجھے پِھر نویدِ بہار دے


مِری زندگی کے یہ سِلسِلےکہیں مَرقدوں سے تھےجا مِلے 

مَیں کبھی کا اِن میں اُتر گیامُجھےتُوبھی مُشتِ غُبار دے


یہ اندھیری رات یہ وحشتیں یہ شِکستہ چاپ یہ آہٹیں

تِری سِمت میرےقدم اُٹھیں مجھےحوصلے وہ اُدھار دے


کوئی کِس کے کِتنا قریب ہے یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے

مِری ہم نفس، مِرے پاس آ مِری زندگی کو سنوار دے


سَرِ راہ خود کو تو کھو دیا رگِ جاں میں درد سمو دیا

تِری حدسے پِھرنہ نِکل سکوں مجھےبازوؤں کےحصار دے


یہ جوقُربتوں میں ہیں فاصلےجومِلےبھی کوئی توکیامِلے 

تِری نذر کرتا ہُوں چاہتیں مجھے نفرتوں کے مَزار دے


محمد عارف


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...