یہ تھکی تھکی سی مُسافتیں اِنہیں ہو سکے تو گُزار دے
میری چارہ گر، میری ہمسفر، مجھے پِھر نویدِ بہار دے
مِری زندگی کے یہ سِلسِلےکہیں مَرقدوں سے تھےجا مِلے
مَیں کبھی کا اِن میں اُتر گیامُجھےتُوبھی مُشتِ غُبار دے
یہ اندھیری رات یہ وحشتیں یہ شِکستہ چاپ یہ آہٹیں
تِری سِمت میرےقدم اُٹھیں مجھےحوصلے وہ اُدھار دے
کوئی کِس کے کِتنا قریب ہے یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے
مِری ہم نفس، مِرے پاس آ مِری زندگی کو سنوار دے
سَرِ راہ خود کو تو کھو دیا رگِ جاں میں درد سمو دیا
تِری حدسے پِھرنہ نِکل سکوں مجھےبازوؤں کےحصار دے
یہ جوقُربتوں میں ہیں فاصلےجومِلےبھی کوئی توکیامِلے
تِری نذر کرتا ہُوں چاہتیں مجھے نفرتوں کے مَزار دے
محمد عارف
No comments:
Post a Comment