یوم پیدائش 13 مئی 1972
اپنے ہونے کا نہیں وہم و گماں تک ہم کو
ایسے ویرانے میں ڈھونڈوگے کہاں تک ہم کو
تیری محفل کو سخن زار کریں گے اتنا
بھول پائیں نہ کبھی حرف و بیاں تک ہم کو
کون سناٹے میں اب ہم کو صدائیں دے گا
اب سنائی نہیں دیتی ہے فغاں تک ہم کو
پیار سچا ہے تو پھر دل میں اتر جانے دے
اتنا محدود نہ رکھ اپنی زباں تک ہم کو
تیری فرقت میں بہاروں نے ہے یہ کام کیا
خوں رلا پائی نہ تھی جب کہ خزاں تک ہم کو
اپنی زلفوں کو انہی شانوں پہ رہنے دو ابھی
بار ہوتا نہیں اب بارِ گراں تک ہم کو
جتنے اپنے تھے سبھی دور ہوئے جاتے ہیں
کوئی برداشت کرے گا بھی کہاں تک ہم کو
دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو گے ہم کو یاسرؔ
ہم نظر آئیں گے دیکھو گے جہاں تک ہم کو
لیاقت علی خان یاسر جالنوی
ابھی کچھ کام باقی ہے ابھی کچھ کام کرنا ہے
ابھی تو صبح دم جاگے ابھی تو شام کرنا ہے
یہ جنگ حق و باطل ہے جسے تم چھیڑ بیٹھے ہو
تمھیں آغاز کرنا تھا ہمیں انجام کرنا ہے
ابھی تاریخ کے صفحوں پر ہم ظل الہی ہیں
ابھی تو عصر حاضر کو بھی اپنے نام کرنا ہے
تمھاری لب کشائی پر بھی ہم خاموش بیٹھیں گے
تمھارے ہر ستم کو آج طشت از بام کرنا ہے
چلے آؤ تمہیں آدابِ محفل ہم سکھاءیں گے
ہمیں دستور برحق کو سبھی میں عام کرنا ہے
محبت کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں لیکن
محبت بھی ہمیں تم سے براے نام کرنا ہے
لیاقت علی خان یاسر جالنوی