غیرت ہو گر مزاج میں ذلت سے تو بچے
اہلِ نشاط نفس کی جرأ ت سے تو بچے
ناکارہ کہہ کے ناز اٹھانے نہیں دیا
اچھا ہوا فضول کی زحمت سے تو بچے
مستقبلِ وطن تو بہت بعد کی ہے چیز
پہلے ہی نسلِ نو بری عادت سے تو بچے
لازم ہے کارِ شوق میں کچھ احتیاط بھی
اہلِ ہوس نشاط کی بدعت سے تو بچے
جس دن سے چسکا لگ گیا رزقِ حلال کا
خوش ہیں کہ ہم حرام کی دولت سے تو بچے
ہو سیدھے پن کے ساتھ حسن ٹیڑھا پن بھی کچھ
اتنا تو ہو کسی کی شرارت سے تو بچے
محمد سراج الحسن
مٹتی جاتی ہے ہر اک قدر پرانی اپنی
ختم ہوجائے گی اک روز کہانی اپنی
خوف بندوں کا نہیں ، خوفِ خدا تھا ہم کو
دشمنوں نے بھی تو یہ بات ہے مانی اپنی
کیسے آزاد ہیں ، فکر غلامانہ ہے
کیسے بے قدر ہیں ہم، قدر نہ جانی اپنی
حاکمِ وقت کو تو قرض کا بھی ہوش نہیں
بے حسی اس کی بنی دشمنِ جانی اپنی
اس کو بہبودیِ ملت پہ نچھاور کردیں
کچھ تو کام آئے بہرحال جوانی اپنی
خط میں کیا لکھوں میں حالات ، چلے آؤ یہاں
داستاں تم کو سنادوں گا زبانی اپنی
خون میں پہلی سی گرمی ہے ، نہ وہ پہلا سا جوش
کس طرح ہو بھلا تقدیر سہانی اپنی
رہا دنیا میں سلامت جو حسن ذوقِ سخن
چھوڑ جاؤں گا زمانے میں نشانی اپنی
No comments:
Post a Comment