دل جو دہلیز پر گڑا رہا ہے
اشک بھی آنکھ میں جڑا رہا ہے
ریل چل دی ہے منزلوں کی طرف
اور مسافر وہیں کھڑا رہا ہے
کاٹ لیتا نسیں جدائی میں
جانے کس سوچ میں اڑا رہا ہے
لوگ تو رو رہے تھے ہونے پر
مجھ پہ نہ ہونا بھی کڑا رہا ہے
آخری بار تو نے جب دیکھا
جس کسی کو وہیں پڑا رہا ہے
میں تو مسمار ہو چکا کاشف
وہ بڑا تھا تبھی بڑا رہا ہے
No comments:
Post a Comment