خوش گوار آئے، نا گوار آئے
جیسے دن آئے ہم گزار آئے
زندگی اک ترے تعاقب میں
خود کو ہم قبر میں اتار آئے
پوچھتے ہیں یہ پاؤں کے چھالے
راہ میں کتنے خارزار آئے
ہر خوشی آئی مثلِ کبکِ دری
اور غم شتر بے مہار آئے
کیا اسیرِ قفس کو فکرِ چمن
برگ ریز آئے یا بہار آئے
تیرا چہرہ ہے خوب تر جاناں
چاند کا نور مستعار آئے
ان کے جلووں کی تاب کب تھی ہمیں
دل کے آئینے میں اتار آئے
ایسے آنا بھی کوئی آنا ہے
برق سا ابر پر سوار آئے
خوف آتا ہے نقد سے تجھ کو
کیسے فن میں ترے نکھار آئے
No comments:
Post a Comment