Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

انجم اعظمی

یوم پیدائش 02 جنوری 1931

میری دنیا میں ابھی رقصِ شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے بہ اندازِ دگر ہوتا ہے

بُھول جاتے ہیں ترے چاہنے والے تجھ کو
اِس قدر سخت یہ ہستی کا سفر ہوتا ہے

اب نہ وہ جوشِ وفا ہے، نہ وہ اندازِ طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے

دل میں ارمان تھے کیا عہد بہاراں کے لیے
چاک گل دیکھ کے اب چاک جگر ہوتا ہے

ہم تو ہنستے بھی ہیں جی جان سے جانے کے لیے
تم جو روتے ہو تو آنسو بھی گُہر ہوتا ہے

سیکڑوں زخم اُسے ملتے اس دنیا سے
کوئی دل تیرا طلب گار اگر ہوتا ہے

قافلہ لٹتا ہے جس وقت سرِ راہ گذر
اُس گھڑی قافلہ سالار کدھر ہوتا ہے

انجمؔ سوختہ جاں کو ہے خوشی کی اُمید
رات میں جیسے کبھی رنگِ سحر ہوتا ہے

انجم اعظمی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...