میری دنیا میں ابھی رقصِ شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے بہ اندازِ دگر ہوتا ہے
بُھول جاتے ہیں ترے چاہنے والے تجھ کو
اِس قدر سخت یہ ہستی کا سفر ہوتا ہے
اب نہ وہ جوشِ وفا ہے، نہ وہ اندازِ طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے
دل میں ارمان تھے کیا عہد بہاراں کے لیے
چاک گل دیکھ کے اب چاک جگر ہوتا ہے
ہم تو ہنستے بھی ہیں جی جان سے جانے کے لیے
تم جو روتے ہو تو آنسو بھی گُہر ہوتا ہے
سیکڑوں زخم اُسے ملتے اس دنیا سے
کوئی دل تیرا طلب گار اگر ہوتا ہے
قافلہ لٹتا ہے جس وقت سرِ راہ گذر
اُس گھڑی قافلہ سالار کدھر ہوتا ہے
انجمؔ سوختہ جاں کو ہے خوشی کی اُمید
رات میں جیسے کبھی رنگِ سحر ہوتا ہے
انجم اعظمی
No comments:
Post a Comment