امن کا خود کو جو کہتے ہیں پیمبر یارب
آستینوں میں لئے پھرتے ہیں خنجر یارب
ابرہہ اٹھا ہے پھر ظلم کی آندھی لے کر
بھیج پھر کوئی ابابیل کا لشکر یارب
کون حق پر ہے یہاں کون ہے باطل کا نقیب
فرق کرنے کی فراست بھی عطا کر یارب
جانے کس کرب سے گذرے ہیں گذرنے والے
خوں بہ داماں ہیں سبھی راہ کے پتھر یارب
قافلہ اپنا لٹا تھا وہ یہی موسم تھا
سامنے آنکھوں کے ہے پھر وہی منظر یارب
ضیا اعظم ابادی
No comments:
Post a Comment