بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے
دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے
چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں
تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے
وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو
کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے
اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو
مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے
تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں
اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے
بشریٰ فرخ
No comments:
Post a Comment