یوم پیدائش 25 دسمبر 1952
مرے ثبوت بہے جارہے ہیں پانی میں
کسے گواہ بناؤں سرائے فانی میں
جو آنسوؤں میں نہاتے رہے سو پاک رہے
نماز ورنہ کسے مل سکی جوانی میں
بھڑک اٹھے ہیں پھر آنکھوں میں آنسوؤں کے چراغ
پھر آج آگ لگادی گئی ہے پانی میں
ہمی تھے ایسے کہاں کے کہ اپنے گھر جاتے
بڑے بڑوں نے گزاری ہے بے مکانی میں
بے کنار بدن کون پار کر پایا
بہت چلے گئے سب لوگ اس روانی میں
وصال و ہجر کہ ایک اک چراغ تھے دونوں
سیاہ ہو کے رہے شب کی بے کرانی میں
بس ایک لمس کہ جل جائیں سب خس و خاشاک
اسے وصال بھی کہتے ہیں خوش بیانی میں
کہانی ختم ہوئی تب مجھے خیال آیا
ترے سوا بھی تو کردار تھے کہانی میں
فرحت احساس
No comments:
Post a Comment