Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

سرشار صدیقی


 یوم پیدائش 25 دسمبر 1926


میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن

شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن


ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی

میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن


سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے

ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن


اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ

گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی گھٹن


ہر آدمی ہے پیکر فریاد ان دنوں

ہر شخص کے بدن پہ ہے کاغذ کا پیرہن


خوش فہم ہیں کہ صرف روایت پرست ہیں

خوش فکر تھے کہ لے اڑے تاریخ کا کفن


اس دور میں یہاں بھی فلسطین کی طرح

کچھ لوگ بے زمیں ہوئے کچھ لوگ بے وطن


مثل صبا کوئی ادھر آیا ادھر گیا

گھر میں بسی ہوئی ہے مگر بوئے پیرہن


سرشارؔ میں نے عشق کے معنی بدل دیے

اس عاشقی میں پہلے نہ تھا وصل کا چلن


سرشار صدیقی

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...