یوم پیدائش 25 دسمبر 1926
میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن
شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن
ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی
میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن
سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے
ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن
اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ
گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی گھٹن
ہر آدمی ہے پیکر فریاد ان دنوں
ہر شخص کے بدن پہ ہے کاغذ کا پیرہن
خوش فہم ہیں کہ صرف روایت پرست ہیں
خوش فکر تھے کہ لے اڑے تاریخ کا کفن
اس دور میں یہاں بھی فلسطین کی طرح
کچھ لوگ بے زمیں ہوئے کچھ لوگ بے وطن
مثل صبا کوئی ادھر آیا ادھر گیا
گھر میں بسی ہوئی ہے مگر بوئے پیرہن
سرشارؔ میں نے عشق کے معنی بدل دیے
اس عاشقی میں پہلے نہ تھا وصل کا چلن
سرشار صدیقی
No comments:
Post a Comment