یوم پیدائش 01 مارچ 1932
وقت سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں
بکھرا ہوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں
پھر جانے ہم ملیں نہ ملیں اک ذرا رکو
میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لوں
یاروں نے جو سلوک کیا اس کا کیا گلا
پھینکے ہیں دوستوں نے جو پتھر سمیٹ لوں
کل جانے کیسے ہوں گے کہاں ہوں گےگھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لوں
تار نظر بھی غم کی تمازت سے خشک ہے
وہ پیاس ہے ملے تو سمندر سمیٹ لوں
اجملؔ بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لوں
اجمل اجملی
No comments:
Post a Comment