تیرے سینے میں محبت کے شرارے تھے کبھی
تجھ کو تیری جاں سے بڑھ کر , ہم بھی پیارے تھے کبھی
ایک مدت بعد بھی ہم سے بُھلائے کب گئے
ہم نے تیرے ساتھ لمحے جو گزارے تھے کبھی
مشکلوں میں چھوڑ کر اپنے کنارے ہو گئے
لوگ بھی وہ جو دل و جاں سے ہمارے تھے کبھی
جرمِ اُلفت تو فقط ہم سے ہی سرزد کب ہوا
تیری آنکھوں میں بھی چاہت کے اشارے تھے کبھی
آج جِن ہاتھوں میں پتھر ہیں ہمارے واسطے
اُن سے کتنے پھول تُو نے ہم پہ وارے تھے کبھی
زندگی بھر ہم سے اُن کا کب ازالہ ہو سکا
جو محبت میں مِلے ہم کو خسارے تھے کبھی
آج ذُلفی سوچتا ہوں ہو گئے کیسے جدا
ہم کسی دریا کے جیسے دو کنارے تھے کبھی
ذوالفقار علی ذُلفی
سرِ محفل تجھے سپنوں کی رانی میں نہیں کہتا
جو آنکھوں سے بتاتا ہوں زبانی میں نہیں کہتا
نہ ہو جس آنکھ کو پہچان کچھ اپنے پرائے کی
اُسے پاگل سمجھتا ہوں ٫ سیانی میں نہیں کہتا
یہاں مطلب کی خاطر ہی محبت لوگ کرتے ہیں
حقیقت ہے کوئی جھوٹی کہانی میں نہیں کہتا
مِری مطلب پرستوں سے بِگڑ جاتی ہے تب اکثر
کِسی کم ظرف کو جب خاندانی میں نہیں کہتا
مِلو جب بھی تو مِلتے ہی ذرا سا مسکرا دینا
مجھے دو اپنے دل پر حکمرانی میں نہیں کہتا
نجانے عشق ہو جائے اُسے میری غزل پڑھ کر
ابھی تک تو اُسے اپنی دِوانی میں نہیں کہتا
چُھپا کے تیر پھولوں میں تمہارا پھینکنا مجھ پر
اِسے ذُلفی محبت کی نشانی میں نہیں کہتا
ذوالفقار علی ذُلفی
No comments:
Post a Comment