Urdu Deccan

Tuesday, March 23, 2021

ایڈوکیٹ متن طالب

 خوشبو جو تخیل میں ہے فن میں بھی وہی ہے

دل میں جو ہمارے ہے سخن میں بھی وہی ہے


محسوس ہو خطرہ جو شناور کو بھنور میں 

اے یار ! ترے چاہِ ذقن میں بھی وہی ہے


تہذیب پتہ چلتی ہے انساں کی زباں سے

ویسے تو میاں مشک ختن میں بھی وہی ہے


معیار پہ اترا ہے زمانے کے جو سکہ

قیمت بھی اسی کی ہے چلن میں بھی وہی ہے


گر آنکھ سے ٹپکے تو مزہ اور ہی کچھ ہے

کہنے کو لہو پورے بدن میں بھی وہی ہے


عاشق کو جو محبوب کی زلفوں میں ہے راحت 

منصور کو دار اور رسن میں بھی وہی ہے


قصہ ہے شبِ ہجر کا تکیے کی نمی میں 

 بکھرے ہوئے بستر کی شکن میں بھی وہی ہے


اسلاف سے بیباک طبیعت ملی ہم کو

اور جرأت اظہار ، سخن میں بھی وہی ہے


محسوس گھٹن ہوتی ہے پردیس میں مجھ کو

جبکہ میاں ! ماحول وطن میں بھی وہی ہے


آئینے کو مکاری نہیں آتی ہے یارو!

طالبؔ کی زباں پر ہے جو ، من میں بھی وہی ہے


ایڈوکیٹ متین طالبؔ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...