خوشبو جو تخیل میں ہے فن میں بھی وہی ہے
دل میں جو ہمارے ہے سخن میں بھی وہی ہے
محسوس ہو خطرہ جو شناور کو بھنور میں
اے یار ! ترے چاہِ ذقن میں بھی وہی ہے
تہذیب پتہ چلتی ہے انساں کی زباں سے
ویسے تو میاں مشک ختن میں بھی وہی ہے
معیار پہ اترا ہے زمانے کے جو سکہ
قیمت بھی اسی کی ہے چلن میں بھی وہی ہے
گر آنکھ سے ٹپکے تو مزہ اور ہی کچھ ہے
کہنے کو لہو پورے بدن میں بھی وہی ہے
عاشق کو جو محبوب کی زلفوں میں ہے راحت
منصور کو دار اور رسن میں بھی وہی ہے
قصہ ہے شبِ ہجر کا تکیے کی نمی میں
بکھرے ہوئے بستر کی شکن میں بھی وہی ہے
اسلاف سے بیباک طبیعت ملی ہم کو
اور جرأت اظہار ، سخن میں بھی وہی ہے
محسوس گھٹن ہوتی ہے پردیس میں مجھ کو
جبکہ میاں ! ماحول وطن میں بھی وہی ہے
آئینے کو مکاری نہیں آتی ہے یارو!
طالبؔ کی زباں پر ہے جو ، من میں بھی وہی ہے
ایڈوکیٹ متین طالبؔ
No comments:
Post a Comment