یوم پیدائش 01 جنوری 1962
کرب چہروں پہ سجاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم وطن چھوڑ کے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
زندگی ایک کہانی کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
عمر بھر جن کو میسر نہیں ہوتی منزل
خاک راہوں میں اڑاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کچھ پرندے ہیں جو سوکھے ہوئے دریاؤں سے
علم کی پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
زندہ رہتے ہیں کئی لوگ مسافر کی طرح
جو سفر میں کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کا پیغام ملا کرتا ہے غیروں سے مجھے
وہ مرے پاس خود آتے ہوئے مر جاتے ہیں
جن کو اپنوں سے توجہ نہیں ملتی جاویدؔ
ہاتھ غیروں سے ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ملک زادہ جاوید
No comments:
Post a Comment