یوم پیدائش 03 فروری 1940
ترے قریب پہنچنے کے ڈھنگ آتے تھے
یہ خود فریب مگر راہ بھول جاتے تھے
ہمیں عزیز ہیں ان بستیوں کی دیواریں
کہ جن کے سائے بھی دیوار بنتے جاتے تھے
ستیز نقش وفا تھا تعلق یاراں
وہ زخمۂ رگ جاں چھیڑ چھیڑ جاتے تھے
وہ اور کون ترے قرب کو ترستا تھا
فریب خوردہ ہی تیرا فریب کھاتے تھے
چھپا کے رکھ دیا پھر آگہی کے شیشے کو
اس آئینے میں تو چہرے بگڑتے جاتے تھے
اب ایک عمر سے دکھ بھی کوئی نہیں دیتا
وہ لوگ کیا تھے جو آٹھوں پہر رلاتے تھے
وہ لوگ کیا ہوئے جو اونگھتی ہوئی شب میں
در فراق کی زنجیر سی ہلاتے تھے
کشور ناہید
No comments:
Post a Comment