یوم پیدائش 01 جنوری 1955
اک گیا دوسرا نظر میں ہے
زندگی موت کے سفر میں ہے
ہے ہوا میں عذاب کی تاثیر
حشر برپا جہان بھر میں ہے
منحصر ہے یقین قبروں پر
آدمی قید اپنے گھر میں ہے
خبریں اوروں کی جو سناتا تھا
آہ وہ بھی تو اک خبر میں ہے
نخوت حسن ہے نہ شدت عشق
خوف ہمزاد بس کھنڈر میں ہے
گرد میں اب نظر نہیں آتا
جانے والا جو رہگذر میں ہے
وہ جو لاشیں بچھا رہا تھا یہاں
لاش اس کی بھی لاش گھر میں ہے
کونسی چال وقت چلنے لگا
اک صدی ختم لمحہ بھر میں ہے
جو بھی چینل بدل کے دیکھتا ہوں
ایک چہرہ ہی بس نظر میں ہے
حسان آفندی
No comments:
Post a Comment