یوم پیدائش 01 مئی 1954
آج کل ہوتا ہے رسوائی سے عزت کا ملاپ
کاش ہو جاتا کبھی صورت سے سیرت کا ملاپ
تیل میں پانی کبھی گھلتا نہیں ہے دوستو
کیسے ممکن ہے فسانے سے حقیقت کا ملاپ
ہاتھ میں نفرت کی مشعل ہے لبوں پر پیار ہے
پھر بھلا نفرت سے ہو کیسے محبت کا ملاپ
آج بس محسوس کرنے کی اجازت ہے ہمیں
حشر میں دیکھیں گے ہم خالق سے خلقت کا ملاپ
بیشتر اک دوسرے کے واسطے ہیں اجنبی
ہاں! مساجد میں مگر جاری ہے ملت کا ملاپ
سچ کو ثابت کر چکے ہیں جھوٹ ، اپنے حکمراں
خیر سے کیوں کر ہوا ، شر کی حمایت کا ملاپ
آئینے کو توڑ کر جھانکو تو مل جائوں گا میں
آپ کی صورت سے ہوگا میری صورت کا ملاپ
بہرِ اردو تو جگر کا خوں جلاتا ہے عزیز
کاش ہو جاتا تری خدمت سے شہرت کا ملاپ
عزیز بلگامی
No comments:
Post a Comment