یوم پیدائش 01 مئی 1929
سفر پہ یوں مصر ہوں میں کہ حوصلوں میں جان ہے
جو لٹ چکا یقین تھا جو بچ گیا گمان ہے
زمین کی کشش کا جال توڑ کر نکل گئیں
مگر یہ طے ہے چیونٹیوں کی آخری اڑان ہے
لہو کے نام لکھ دیے ہیں تیر ابر و باد کے
زمیں ہدف بنی ہوئی ہے آسماں کمان ہے
وہی جو آدھی رات کو چراغ بن کے جل اٹھا
کسی کی یاد کا نہیں وہ زخم کا نشان ہے
مفاہمت کے دیو کا اسیر ہو گیا نظامؔ
میری انا کا وہ پرند جس میں میری جان ہے
نظام الدین نظام
No comments:
Post a Comment