یوم پیدائش 02 جنوری 1952
خود ڈوب کر بھی رنگِ شفق دے گیا مجھے
یہ کون زندگی کا سبق دے گیا مجھے
غم میں بھی مسکرانے کا حق دے گیا مجھے
فردا کا وہ درخشاں ورق دے گیا مجھے
خوشبو کی طرح آیا وہ آکر چلا گیا
اِک سَر خوشی کے ساتھ قلق دے گیا مجھے
قاتل مرا عجیب تھا ہر اپنے وار سے
رگ رگ میں زندگی کی رمق دے گیا مجھے
ایثار صبر و ضبط وفا آرزو فریب
الفاظ کس قدر وہ اَدق دے گیا مجھے
کیسا تھا وہ طبیب اسد جو دوا کے ساتھ
ناسور آرزوؤں کا شق دے گیا مجھے
اسد رضا
No comments:
Post a Comment