یوم پیدائش 01 جنوری 1936
ہنگامے سے وحشت ہوتی ہے تنہائی میں جی گھبرائے ہے
کیا جانئے کیا کچھ ہوتا ہے جب یاد کسی کی آئے ہے
جن کوچوں میں سکھ چین گیا جن گلیوں میں بدنام ہوئے
دیوانہ دل ان گلیوں میں رہ رہ کر ٹھوکر کھائے ہے
ساون کی اندھیری راتوں میں کس شوخ کی یادوں کا آنچل
بجلی کی طرح لہرائے ہے بادل کی طرح اڑ جائے ہے
یادوں کے درپن ٹوٹ گئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
لیکن بے چہرہ ماضی سایہ سایہ لہرائے ہے
کچھ دنیا بھی بیزار ہے اب ہم جیسے وحشت والوں سے
کچھ اپنا دل بھی دنیا کی اس محفل میں گھبرائے ہے
کلیوں کی قبائیں چاک ہوئیں پھولوں کے چہرے زخمی ہیں
اب کے یہ بہاروں کا موسم کیا رنگ نیا دکھلائے ہے
دیوار نہ در سنسان کھنڈر ایسا اجڑا یہ دل کا نگر
تنہائی کے ویرانے میں آواز بھی ٹھوکر کھائے ہے
یہ میرا کوئی دم ساز نہ ہو رفعتؔ یہ کوئی ہم راز نہ ہو
جو میرے گیت مری غزلیں میری ہی دھن میں گائے ہے
رفعت سروش
No comments:
Post a Comment