یوم پیدائش 02 جنوری 1869
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے
بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے
وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ
گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے
ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں
جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے
میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا کے
کبھی چیخ اٹھوں گا غم سہتے سہتے
بتاتے ہیں آنسو کہ اب دل نہیں ہے
جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے
ثاقب لکھنوی
No comments:
Post a Comment