Urdu Deccan

Sunday, January 2, 2022

ثاقب لکھنوی

 یوم پیدائش 02 جنوری 1869


کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے


لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے

بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے


وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ

گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے


ہجومِ تمنا سے گھٹتے تھے دل میں

جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے


میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا کے

کبھی چیخ اٹھوں گا غم سہتے سہتے


بتاتے ہیں آنسو کہ اب دل نہیں ہے

جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے


زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے


کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا

زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے


مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ

کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے


ثاقب لکھنوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...