کیا ستم ھے کہ کوئی مونسِ اجداد نہیں
وہ عمارات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں
صرف چلنا ہی مقدر ھے چلو، چلتے رہو
تا بہ امکان کوئی قریۂ آباد نہیں
دور اک وہ بھی رہا بستۂ پندار تھے ہم
دور اک یہ بھی ھےخوداپنے سے دلشاد نہیں
تیرہ و تار تھے رستے تو خدا یاد آیا
ہم اجالوں میں جب آئے تو خدا یاد نہیں
یاد اتنا تو ھے اک بار ملا ہوں اس سے
کب کہاں کونسے نکڑ پہ ملا یاد نہیں
رہنمائی کا بہت شوق ھے ہم کو لیکن
خود ہمیں اپنی ہی منزل کا پتہ یاد نہیں
ایسی منزل پہ چلے آئے ہیں صد شکر ظہیر
کوئی شکوہ ھی لبوں پر، کوئی فریاد نہیں
ظہیر ناصری
No comments:
Post a Comment