Urdu Deccan

Tuesday, January 18, 2022

ظہیر ناصری

 کیا ستم ھے کہ کوئی مونسِ اجداد نہیں

وہ عمارات ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں


صرف چلنا ہی مقدر ھے چلو، چلتے رہو

تا بہ امکان کوئی قریۂ آباد نہیں


دور اک وہ بھی رہا بستۂ پندار تھے ہم

دور اک یہ بھی ھےخوداپنے سے دلشاد نہیں


تیرہ و تار تھے رستے تو خدا یاد آیا

ہم اجالوں میں جب آئے تو خدا یاد نہیں


یاد اتنا تو ھے اک بار ملا ہوں اس سے

کب کہاں کونسے نکڑ پہ ملا یاد نہیں


رہنمائی کا بہت شوق ھے ہم کو لیکن

خود ہمیں اپنی ہی منزل کا پتہ یاد نہیں


ایسی منزل پہ چلے آئے ہیں صد شکر ظہیر

کوئی شکوہ ھی لبوں پر، کوئی فریاد نہیں


ظہیر ناصری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...