یوم پیدائش 21 سپتمبر 1968
یہ رقص زندگی کا لہو میں دھمال ہے
چل جائے جو زمانہ قیامت کی چال ہے
کیوں راستـے میں چھوڑ گئــے، تھے جو ہمسفر
اپنی نظر سے الجھا ہوا اک سوال ہے
کہہ دیجئے وہ بات جو اخفا ہے اب تلک
کیجے نہ کچھ خیال جو شیشے میں بال ہے
آئی بہار، عکس نظر آ گیا ہمیں!
ہاتھوں میں جیسے پھولـوں بھرا ایک تھال ہے
خوشبو کے جیسے پھیل گئی اپنی داستاں
کھولیں جو ہم زبان، کہاں یہ مجال ہے
آنکھوں میں آ کے ٹھہر گئی خواب کی تھکن
بوجھل ہے رات، چاند کی کرنوں کا جال ہے
اپنے اصول اپنے تھے، سودا نہ کر سکے
تم سے بچھڑ کے شہر میں قحط الرجال ہے
درویش ہے پڑاؤ ہے جنگل کے آس پاس
کہتے ہیں لوگ اس کو بہت مالا مال ہے
دل بستگی کا کوئی بہانہ تلاش لیں
کہہ دیں کہ اس خزاں میں بھی تیرا جمال ہے
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment