یوم پیدائش 19 جنوری
کارِ جنوں میں خود کو نہ خود کی خبر ملے
دستِ طلب کو اپنا ہی شوریدہ سر ملے
رُخ آسماں کا لرزہ بر اندام کیوں نہ ہو
نوکِ سناں پہ جب کوئی پاکیزہ سر ملے
آئے نظر شفق پہ پرندے شکستہ حال
وہ چاہتے ہیں اب انھیں زارِ شجر ملے
مجھ کو ہے زندگی سے زیادہ قضا عزیز
”یا رب مری دعا کو نہ بابِ اثر ملے“
قیصر کو ابتغائے محبت سے کیا غرض
حسرت ہے اس کے دل میں کہ سوزِ جگر ملے
محمد امتیاز قیصر
No comments:
Post a Comment