یوم پیدائش 19 جنوری 1938
مرا یقیں، نہ کہیں میرا وہم ہو جائے
کبھی تو خواب کی تعبیر لے کے تو آئے
ترے جہان کی وسعت ترے خیال سے ہے
وہی خیال ہر اک دل میں کاش در آئے
نمود صبح کی، تقدیر شب تو ہے لیکن
مرا خیال گہن میں کہیں نہ آ جائے
یہ راستہ ہے لہو کا، قدم قدم پہ کہیں
چلو چلو کی سدا سن کے دل نہ گھبرائے
یہ ڈر، یہ خط، یہ تشویش کی فصیلیں ہیں
خدا کا قہر بھی اس شہر میں اتر آئے
بشیر آروی
No comments:
Post a Comment