Urdu Deccan

Saturday, January 8, 2022

جعفر ساہنی

 یوم پیدائش 05 جنوری 1941


دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید

آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید


ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی

پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید


ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ

تھا ادھر اب گیا ادھر شاید


سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر

ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید


پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں

ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید


بیکلی بڑھ گئی ہے دریا کی

کہہ گیا جھک کے کچھ شجر شاید


درد کا ہو گیا ہے مسکن وہ

لوگ کہتے ہیں جس کو گھر شاید


مل کے ان سے خوشی ہوئی مجھ کو

وہ بھی ہوں گے تو خوش مگر شاید


روتے روتے ہنسی مری خواہش

مل گئی اک نئی خبر شاید


دن کا کٹنا محال ہے تو سہی

رات ہو جائے گی بسر شاید


آگ پانی میں جو لگاتا ہے

وہ بھی ہوگا کوئی بشر شاید


صحن دل سے خوشی نہیں گزری

راستہ تھا وہ پر خطر شاید


دھوپ کے گھر گھٹا گئی جعفرؔ

خشک کرنے کو بال و پر شاید


جعفر ساہنی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...