یوم پیدائش 05 جنوری 1941
دل میں بیٹھا تھا ایک ڈر شاید
آج بھی ہے وہ ہم سفر شاید
ہاتھ پتھر سے ہو گئے خالی
پیڑ پر ہے نہیں ثمر شاید
ڈھونڈھتا تھا وجود اپنا وہ
تھا ادھر اب گیا ادھر شاید
سرخیاں اگ رہی ہیں دامن پر
ہو گیا ہاتھ خوں سے تر شاید
پھول الفت کے کھل رہے ہوں جہاں
ہوگا ایسا بھی اک نگر شاید
بیکلی بڑھ گئی ہے دریا کی
کہہ گیا جھک کے کچھ شجر شاید
درد کا ہو گیا ہے مسکن وہ
لوگ کہتے ہیں جس کو گھر شاید
مل کے ان سے خوشی ہوئی مجھ کو
وہ بھی ہوں گے تو خوش مگر شاید
روتے روتے ہنسی مری خواہش
مل گئی اک نئی خبر شاید
دن کا کٹنا محال ہے تو سہی
رات ہو جائے گی بسر شاید
آگ پانی میں جو لگاتا ہے
وہ بھی ہوگا کوئی بشر شاید
صحن دل سے خوشی نہیں گزری
راستہ تھا وہ پر خطر شاید
دھوپ کے گھر گھٹا گئی جعفرؔ
خشک کرنے کو بال و پر شاید
جعفر ساہنی
No comments:
Post a Comment