یوم پیدائش 01 جنوری 1920
عکس جا بہ جا اپنی ذات کے گراتا ہے
کون آسمانوں سے آئنے گراتا ہے
میں نے روپ دھارا ہے اس کی روح کا اور وہ
میرے نقش ہی میرے سامنے گراتا ہے
عمر بھر اٹھائے گا دکھ مرے بکھرنے کا
آنکھ کی بلندی سے کیوں مجھے گراتا ہے
شعلۂ محبت اور آب اشک اے ناداں
روشنی کو دریا میں کس لئے گراتا ہے
وہ ہوا کا جھونکا بھی میرا سخت دشمن ہے
شاخ سے جو پتے کو زور سے گراتا ہے
جذب کر نہ لے جعفرؔ سوچ لہر کی تجھ کو
تو کہاں سمندر میں کنکرے گراتا ہے
جعفر شیرازی
No comments:
Post a Comment