یوم پیدائش 21 سپتمبر
ہم اپنے رنج و الم کا حساب رکھتے ہیں
بسا ہوا کوٸی آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں
ہمارے نام پہ چہرہ ہوا ہے زرد یہ کیوں
براٸی چاہنے والے یہ تاب رکھتے ہیں
چمن کی عمر ہی کیا خوشبوٶں کی قسمت کیا
کہ ان کے ساتھ کے رستے سراب رکھتے ہیں
ہمیں بھی ہوتا ہے دکھ آپ سے بچھڑنے کا
ہم اپنے پاس بھی اک دل جناب رکھتے ہیں
نہ جانے کون سے رستے سے لوٹ آۓ وہ
چراغ جلتے ہوۓ باب باب رکھتے ہیں
دعاۓ نیم شبی جن کا وصف رہتا ہے
وہ ہر قدم کو بہت کامیاب رکھتے ہیں
ہمارا واسطہ ان سے ہی عمر بھر کا ہے جو
"دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"
خطا پہ اپنی ندامت انھیں نہ ہوگی عظیم
جو ترش رو ہیں جو لہجہ خراب رکھتے ہیں
(مصرع:" دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں"۔۔۔۔راحت اندوری)
ابن عظیم فاطمی
No comments:
Post a Comment