کمتر کے حال پر نہ سکندر کے حال پر
اُن کی نگہ ہے قلبِ منور کے حال پر
مجھ ڈوبتے کو چھوڑ کے ساگر کے حال پر
الزام ڈالتا ہے مقدر کے حال پر
راحت، سکون، خواہشیں سب کچھ نگل گیا
افسوس آدمی نما اژدر کے حال پر
شاہِ دروغ گو سے ہیں نادان لوگ خوش
کرتا نہیں نظر کوئی بےگھر کے حال پر
حیلہ گری سے کام لیا دوستوں کے بیچ
ابہاؔم جب توجہ ہوئی گھر کے حال پر
ابرار ابہاؔم
No comments:
Post a Comment