جب تیرے التفات کے محور میں آگیا
دل بھی شمارِ برتر وبہتر میں آگیا
مستانہ چال چلتا ہوا آج پھر کوئی
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
آتے ہو میرے دل کونشانہ کیے ہوئے
یہ دم کہاں سے آپ کے خنجر میں آگیا
میں سکھ کی چادر اوڑھ کے سوئی ہی تھی کہ دکھ
"دستک دیے بغیر میرے گھر میں آ گیا"
میں خوش نصیب ہوں کہ مری جستجو کا خواب
تعبیر بن کے آپ کے پیکر میں آگیا
ناکامِ راہِ شوق سمجھنا نہ تم اُسے
تھک ہار کر جو کوچہء دلبر میں آگیا
کیا جانیے کہ کس گھڑی تنہائیوں کا خوف
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
یہ ہے حمیراؔ عشقِ حقیقی کا معجزہ
جو کچھ چھپا ہوا تھا وہ منظر میں آگیا
حمیرا اکبر

No comments:
Post a Comment