یوم پیدائش:01 جنوری 1971
نہیں کہ تم کو سہارے فریب دے کے گئے
ہمیں بھی دوست ہمارے فریب دے کے گئے
پھر اس کے بعد سرابوں کا ایک صحرا تھا
چمکتی رات کے تارے فریب دے کے گئے
جو وقت ہجر میں کاٹا وہ معتبر ٹھہرا
جولمحے ساتھ گزارے فریب دے کے گئے
کوئی ستارا نہ ابھرا وفا کے ساحل پر
سمندروں کے نظارے فریب دے کے گئے
وہیں پہ راکھ تھے پھر خواب میری پلکوں کے
کبھی جو اپنے سہارے فریب دے کے گئے
نگہہ نے شوق سے دیکھا صبا کی آمد کو
ہوا کے سارے اشارے فریب دے کے گئے
پڑی نظر جو کتابوں میں خشک پھولوں پر
وہیں پہ ضبط ہمارے فریب دے کے گئے
شاہدہ سردار
No comments:
Post a Comment