یوم پیدائش: 5، جنوری 1964
ہر طرف اس کے لیے بننے لگی ہے اب ہوا
دیکھیے اس شمعِ روشن کو بجھا ئے کب ہوا
پیار ، ہمدردی ، وفاسب اچھے دن کےتھےرفیق
جب برے دن آ گئے تو ہو گئے ہیں سب ہوا
ان مشینو ں کی ہواؤں سے خدارا اب بچا
کھول دے سارے دریچے تازہ آئے تب ہوا
کارخانہ زیست کا چلتا بھی اس کے دم سے ہے
گھر کا گھر ویران کر دے قہر ڈھا ئے جب ہوا
آج کا انساں تو سورج چاند پر بھی جا بسے!
ہاں ، میسّر کاش کردے اُن پہ میرا رب ہوا
لگ گئی تھی آگ بستی میں کہیں پانی نہ تھا
اور ایسے میں بھیانک کر گئی کر تب ہوا
اب کہاں ہے فکراس کو دل کے رشتوں کی ذرا !
کیا امارت کی اسے بھی لگ گئی مطلب ہوا؟
گا ئوں میں اب جاکےسرور دیکھیےکیسی ہےیہ
شہرکی تو ہوگئی ہے اب بڑی بے ڈھب ہوا
م سرور پنڈولوی
No comments:
Post a Comment