یوم پیدائش 26 جنوری 1926
چاہت کے پرندے دل ویران میں آئے
صیاد کسی صید کے ارمان میں آئے
وہ چاند ہے سچ مچ کا تو پھر اس سے کہونا
اترے میرے گھر میں کبھی دالان میں آۓ
سورج ہے تو کچھ اپنی تمازت کی رکھے لاج
پگھلائے مجھے برف کی دکان میں آئے
سایہ ہے تو گزرے کسی دیوار کو چھو کر
ہے دھوپ تو اونچان سے ڈھلوان میں آئے
نغمہ ہے تو پھوٹے کبھی ساز رگ جاں سے
آواز کوئی ہے تو مرے کان میں آئے
ہے جسم تو بن جائے مری روح کا مسکن
ہے جان تو پھر اس تن بے جان میں آئے
ساحل ہے تو نظارہ کی دعوت بھی نظر کو
ہے موج بلاخیز تو طوفان میں آئے
امرت ہے تو چمکے لب لعلیں سے کسی کے
ہے زہر تو بازار سے سامان میں آئے
غنچہ ہے تو کھل جائے مرے دل کی صدا پر
خوشبو ہے تو زخموں کے گلستان میں آئے
فرمانؔ وہ جس آن میں جس رنگ میں چاہے
آۓ مگر اتنا ہو کہ پہچان میں آئے
فرمان فتح پوری
No comments:
Post a Comment