جو بات بس میں نہ ہو وہ کہی،، نہیں جاتی
کسی کو اپنی زباں یوں ہی دی نہیں جاتی
ہمارے سامنے وہ گھنٹوں بیٹھی رہتی ہے
ہمارے آنکھ کی تشنہ لبی نہیں جاتی
سنائی دیتی ہے اندر سے ہچکیوں کی صدا
تبھی تو آنکھوں سے میری نمی نہیں جاتی
تمھاری یاد سے کیسے بھریں گے زخم مرے
گلوں کی چوٹ تو کانٹوں سے سی نہیں جاتی
غموں کا کیسے کروں قہقہوں سے اندازہ
وہ رو پڑے بھی تو لب سے ہنسی نہیں جاتی
سنا ہے وہ بھی مجھے یاد کرتی ہے ماشی
جدائی مجھ سے بھی اس کی سہی نہیں جاتی
No comments:
Post a Comment