یوم پیدائش 01 مارچ 1963
میں ایک کانچ کا پیکر وہ شخص پتھر تھا
سو پاش پاش تو ہونا مرا مقدر تھا
تمام رات سحر کی دعائیں مانگی تھیں
کھلی جو آنکھ تو سورج ہمارے سر پر تھا
چراغ راہ محبت ہی بن گئے ہوتے
تمام عمر کا جلنا اگر مقدر تھا
فصیل شہر پہ کتنے چراغ تھے روشن
سیاہ رات کا پہرا دلوں کے اندر تھا
اگرچہ خانہ بدوشی ہے خوشبوؤں کا مزاج
مرا مکان تو کل رات بھی معطر تھا
سمندروں کے سفر میں وہ پیاس کا عالم
کہ فرش آب پہ اک کربلا کا منظر تھا
اسی سبب تو بڑھا اعتبار لغزش پا
ہمارا جوش جنوں آگہی کا رہبر تھا
جو ماہتاب حصار شب سیاہ میں ہے
کبھی وہ رات کے سینے پہ مثل خنجر تھا
میں اس زمیں کے لیے پھول چن رہا ہوں رئیسؔ
مرا نصیب جہاں بے اماں سمندر تھا
رئیس وارثی
No comments:
Post a Comment