تھوڑی اَنا ضرور ہے مغرور تو نہیں
آزاد سا میں شخص ہوں محصور تو نہیں
سہتا رہے جفاؤں کو اُلفت کے نام پر
اب اس قدر بھی دل مرا مجبور تو نہیں
ہنس ہنس کے کیوں اٹھاؤں ترے ناز اور ستم
عاشق ہوں میں ترا کوئی مزدور تو نہیں
اک روز بھر ہی جائے گا یہ بے وفائی کا
چھوٹا سا ایک زخم ہے ناسور تو نہیں
کاشی رواں دواں ہے نئے راستوں پہ اب
گھائل ہوا تھا دل مِرا معذور تو نہیں
"کاشی"
No comments:
Post a Comment