یوم پیدائش 25 دسمبر 1919
آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئے گا
گزرو گے شہر سے تو مرا گھر بھی آئے گا
اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر
شیشہ اگر بنوگے تو پتھر بھی آئے گا
سیراب ہو کے شاد نہ ہوں رہروان شوق
رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئے گا
دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جس کی جستجو میں ہو وہ در بھی آئے گا
بیٹھا ہوں کب سے کوچۂ قاتل میں سرنگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئے گا
سرشار ہو کے جا چکے یاران مے کدہ
ساقی ہمارے نام کا ساغر بھی آئے گا
اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم
اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئے گا
اتنی بھی یاد خوب نہیں عہد عشق کی
نظروں میں ترک عشق کا منظر بھی آئے گا
روداد عشق اس لیے اب تک نہ کی بیاں
دل میں جو درد ہے وہ زباں پر بھی آئے گا
جس دن کی مدتوں سے ہے نوشادؔ جستجو
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئے گا
نوشاد علی
No comments:
Post a Comment