Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

سیف زلفی

 یوم پیدائش 25 دسمبر 1934


سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے

دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے


دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو

سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے


وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا

ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے


وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے

وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ گئے


آئی جو موج پاؤں زمیں پر نہ جم سکے

دریا چڑھا تو کتنے سفینے الٹ گئے


پھیلا غبار غم تو کہیں منہ چھپا لیا

آندھی اٹھی تو گھر کے ستوں سے لپٹ گئے


کہتے تھے جس کو قرب وہی فاصلہ بنا

بدلا جو رخ ندی نے کئی شہر کٹ گئے


گمنام تھے تو سب کی طرف دیکھتے تھے ہم

شہرت ملی تو اپنی خودی میں سمٹ گئے


دستک ہوئی تو دل کا دریچہ نہ کھل سکا

آئے اور آ کے یاد کے جھونکے پلٹ گئے


میں خود ہی اپنی راہ کا پتھر بنا رہا

ہر چند آپ بھی مرے رستے سے ہٹ گئے


دل کو کسی کی یاد کا غم چاٹتا رہا

یوں میری زندگی کے کئی سال گھٹ گئے


زندان غم کا دھیان بھی خنجر سے کم نہ تھا

زنجیر کی کھنک سے مرے پاؤں کٹ گئے


رستے رہیں گے دیدۂ حسرت سے عمر بھر

زلفیؔ جو زخم پائے طلب سے چمٹ گئے


سیف زلفی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...