یوم پیدائش 25 دسمبر 1934
سائے جو سنگ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے
دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے
دن بھر جلے جو دھوپ کے بستر پہ دوستو
سورج چھپا تو چادر شب میں سمٹ گئے
وہ کرب تھا کہ دل کا لہو آنچ دے اٹھا
ایسی ہوا چلی کہ گریبان پھٹ گئے
وہ فکر تھی کہ دیدہ و دل مضمحل ہوئے
وہ گرد تھی کہ گھر کے در و بام اٹ گئے
آئی جو موج پاؤں زمیں پر نہ جم سکے
دریا چڑھا تو کتنے سفینے الٹ گئے
پھیلا غبار غم تو کہیں منہ چھپا لیا
آندھی اٹھی تو گھر کے ستوں سے لپٹ گئے
کہتے تھے جس کو قرب وہی فاصلہ بنا
بدلا جو رخ ندی نے کئی شہر کٹ گئے
گمنام تھے تو سب کی طرف دیکھتے تھے ہم
شہرت ملی تو اپنی خودی میں سمٹ گئے
دستک ہوئی تو دل کا دریچہ نہ کھل سکا
آئے اور آ کے یاد کے جھونکے پلٹ گئے
میں خود ہی اپنی راہ کا پتھر بنا رہا
ہر چند آپ بھی مرے رستے سے ہٹ گئے
دل کو کسی کی یاد کا غم چاٹتا رہا
یوں میری زندگی کے کئی سال گھٹ گئے
زندان غم کا دھیان بھی خنجر سے کم نہ تھا
زنجیر کی کھنک سے مرے پاؤں کٹ گئے
رستے رہیں گے دیدۂ حسرت سے عمر بھر
زلفیؔ جو زخم پائے طلب سے چمٹ گئے
سیف زلفی
No comments:
Post a Comment