فن جو زیرِ عتاب رہتا ہے
پھر کہاں اس پہ تاب رہتا ہے
میں تجھے بھولنا بھی چاہوں تو
غم ترا بے حساب رہتا ہے
اور بھی پھول ہیں زمانے میں
باغ میں کیا گلاب رہتا ہے
تم کوئی جب سوال کرتے ہو
دل مرا لاجواب رہتا ہے
میں تمہیں کھو نہ دوں زمانے میں
دل میں یہ ڈر جناب رہتا ہے
تاز تو بھی نہ کر بہاروں پر
وقت کب ہم رکاب رہتا ہے
No comments:
Post a Comment