نظم مگر وہ چپ ہے
دبی دبی سی گھٹی گھٹی سی
گلے میں اٹکی ہوئی تھی کب سے
تو ایک دن جب
وہ چیخ ابھری تو اس طرح کہ
زمیں پہ ابھری ہوئی لکیروں کی سرحدوں کو عبور کرتی ہوئی
فضاؤں میں گونج اٹھی !!!
وہ سن رہا ہے
کہی ہوئی ان کہی
سبھی بات سن رہا ہے
مگر وہ چپ ہے !!
چمن میں پھولوں کی اوٹ لے کر
نہ جانے کب سے دھدھک رہی ہے
جو آگ شعلوں میں ڈھل رہی ہے
وہ کتنی جانیں نگل رہی ہے
وہ جانتا ہے
سمجھ رہا ہے
مگر وہ چپ ہے !!
تمام ظلم و ستم کے آلے
وہ سب مشینیں جو ڈھا رہی ہیں
اخوتوں کی محبتوں کی سبھی فصیلیں!!
سب اس کی نظروں کے سامنے ہے
سنائی بھی دے رہا ہے اس کو
مگر وہ چپ ہے !!
ہر ایک گدھ کو
کھلی اجازت ملی ہوئی ہے
کہ اپنے پنجوں سے
نرم و نازک نحیف و لاغر
بدن کو نوچیں
لہو لہو ہو رہی ہے دھرتی !
وہ دیکھتا ہے
وہ جانتا ہے
مگر وہ چپ ہے !!
یہاں تلک کہ
ہر ایک منصف نےا
پنی آنکھوں کو بند کر کے
توانگروں کے ستم گروں کے
قلم سے لکھے ہی فیصلے سنائے !
اسے خبر ہے
اسے پتہ ہے
مگر وہ چپ ہے !!
تبھی خموشی کی بے زبانی نے
اپنی چپ توڑ ڈالی
ندائے حق سرحدوں سے اوپر
فضاؤں میں گونج اٹھی !!
اگر وہ چپ ہے
تو کیوں نہ چپ ہو
کہ جو ہوا ہے
جو ہو رہا ہے
وہ کیوں نہ ہو گا !!
وہ کیوں نہ چپ ہو
کہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے
اسی کے ایما پہ ہو رہا ہے
اگر وہ چپ ہے !!!
اعظم عباس شکیل
No comments:
Post a Comment