سد ا اگتا سورج مرا ترجماں تھا
بساطِ جہاں پر میں کتنا عیاں تھا
مرے گرد اک مجمع دوستاں تھا
مگر جستجو جس کی تھی وہ کہاں تھا
اسے تھے سفر کے سب آداب ازبر
وہ تنہا بذات خود اک کارواں تھا
کسی کی تلون مزاجی کے صدقے
نشیمن قفس تھا قفس آشیاں تھا
مجھے مل نہ پایا یقیں کا اجالا
میں ایسا گرفتارِ وہم و گماں تھا
تھی شب خواب پرور تو دن پُر تجسس
خوشا جب مرا جذبہء دل جواں تھا
” ذکی “ وہ بھی کیا حوصلہ بخش دن تھے
کہ جب مجھ پہ آسیبِ غم مہرباں تھا
No comments:
Post a Comment