حسن کی تپتی دوپہروں سے روپ کی ڈھلتی شام تلک
ایک کہانی ورد زباں تھی رنجش سے آلام تلک
اس کے اشارہ ابرو سے ہلتے ہیں جگہ سے ہم ورنہ
باندھے ہاتھ کھڑے رہتے ہیں صبح سے لے کر شام تلک
دنیا ناٹک منڈی ہے اور ہاتھوں ہاتھ کا سودا ہے
بک جاتا ہے اس منڈی میں خاص سے لے کر عام تلک
سکھ آرام اور چین کا کوئی پل گزرا نہ دنیا میں
سانسوں کو لیکن چلنا تھا دنیا کے بسرام تلک
کتنا رستہ کھو بیٹھے ہیں ہم ابہام سے منزل تک
اور سجل باقی ہے کتنا منزل سے ابہام تلک
No comments:
Post a Comment