منزلیں دور ہیں اور آبلہ پائی اپنی
کیسے ممکن ہو ترے شہر رسائی اپنی
میں ترا نام قبیلے میں جو لیتا ہوں کبھی
ہر کوئی جھاڑنے لگتا ہے خدائی اپنی
ایک وہ تھا کہ وہ جرگے میں بھی خاموش نہ تھا
ایک ہم تھے کہ نہ دے پائے صفائی اپنی
اب تو یہ حق بھی نہیں ہے اسے چاہا جائے
اب تو یہ زیست بھی لگتی ہے پرائی اپنی
عشق کہتے ہیں جسے ہے در یزداں کا چراغ
اور اسی عشق میں دنیا ہے سمائی اپنی
مل گئی ہجر کی سوغات ہمیں بھی آخر
جانے اب کیسے کٹے گی مرے بھائی اپنی
یہ محبت ہے محبت ہے محبت جو ثمر
عمر بھر کی ہے یہی نیک کمائی اپنی
No comments:
Post a Comment