جواں ، جو تھے کل تک ستاروں سے آگے
وہ غافل ہیں غفلت شعاروں سے آگے
عزیزو ! چھلانگیں نہ اتنی لگاؤ
خزاں کی رتیں ہیں بہاروں سے آگے
ادب کے تقاضے سے دامن نہ کھینچو
رہو تم نہ پرہیز گاروں سے آگے
دہکتی ہوئی آگ کا ہے سمندر
ذرا جھانک دل کش نظاروں سے آگے
صحابہ کا نقش قدم راہِ حق ہے
بڑھو تم نہ ان جاں نثاروں سے آگے
بزرگوں کی صحبت بھی ہے باغ جنت
رکھے گی یہ تم کو ہزاروں سے آگے
غباروں کے خوگر ! بتاؤں میں کیسے
مزے کیا ہیں ان شہ سواروں سے آگے
اجی ! ناصری کو کہاں ڈھونڈتے ہو
ملیں گے تمہیں ہم قطاروں سے آگے
No comments:
Post a Comment