ہرا بھرا تھا خزاں میں شجر اداسی کا
ہم اہلِ درد نے کھایا ثمر اداسی کا
دیارِ دل کسی خوش رنگ کے در آنے سے
ہوا ہے بے سر و ساماں نگر اداسی کا
ِادھر اُدھر ہیں بہاروں نے گھر بسائے ہوئے
وہ شاخ پھول کھلائے کدھر اداسی کا
میں خوش خیال تلاشِ خدا میں سمجھا ہوں
وہی خدا ہے جو ہے چارہ گر اداسی کا
No comments:
Post a Comment