آغاز سے غرض ہے نہ انجام سے مجھے
اے عشق واسطہ ہے ترے نام سے مجھے
راحت نصیب ہوتی ہے آلام سے مجھے
کہنا ہے بس یہ گردشِ ایام سے مجھے
کتنا سکوں ہے حسرتِ ناکام سے مجھے
کانٹوں پہ نیند آگئی آرام سے مجھے
دیوانہ وار جل کے پتنگے نے شمع پر
آگاہ کردیا مرے انجام سے مجھے
میرے جنونِ عشق کا شاید ہے یہ اثر
دنیاپکارتی ہے ترے نام سے مجھے
کہنا ہو جو مجھے ، میں وہ کہتا ہوں برملا
تعریف سے غرض ہے نہ دشنام سے مجھے
اک بوند بھی خلوص کی جس میں نہیں کنول
راحت کبھی ملےگی نہ اس جام سے مجھے
کنول نور پوری
No comments:
Post a Comment